Momin Khan Momin (1800 - 1851)




مومن خاں مومؔن

        مومن خاں نام اور مومؔن تخلص تھا۔ 1800میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نا م حکیم غلام نبی تھا  جو کشمیری حکیموں کے خاندان کے ایک فرد تھے۔  ان کے آباؤ اجداد  سلطنتِ مغلیہ  کے آخری دور میں کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے۔  یہاں آکر شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے اور شاہ عالم کے دور میں انہیں چند گاؤں بطورَ جاگیر ملے۔ مغلیہ خاندان کے خاتمے پر   انگریزی حکومت کی طرف سے پنشن مقرر ہو گئی جس کا کچھ حصہ مومن کو بھی ملتا تھا۔ 


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ




مومن کے والد کو شاہ عبد العزیز سے خاص عقیدت حاصل تھی۔  چنانچہ مومن کا نام بھی انہوں نے ہی رکھا تھا۔  مومن نے ابتدئی تعلیم شاہ عبدالقادر سے حاصل کی تھی۔  علمِ نجوم سے انہیں خصوصی دلچسپی تھی۔ شطرنج کا بھی ان کو بہت شوق تھا۔ شطرنج کے چوٹی کے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ موسیقی سے بھی لگاؤ تھا اور اس میں بھی لوگ ان کے کمال کو تسلیم کرتے تھے۔

     


مومن بچپن سے ہی شعر گوئی کی استعداد رکھتے تھے۔  ابتدا میں شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھاتے تھے پھر اصلاح لینی چھوڑ دی اور اپنی ذہانت پر ہی بھروسہ کرنے لگے۔  اپنی جوانی میں وہ  شہر کے خوبصورت، خوش پوش اور رنگین مزاج مردوں میں شامل ہوتے تھے۔ جوانی کا دور عشق و عاشقی میں گزرا ۔ 

مومن بچپن سے ہی شعر گوئی کی استعداد رکھتے تھے۔  ابتدا میں شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھاتے تھے پھر اصلاح لینی چھوڑ دی اور اپنی ذہانت پر ہی بھروسہ کرنے لگے۔  اپنی جوانی میں وہ  شہر کے خوبصورت، خوش پوش اور رنگین مزاج مردوں میں شامل ہوتے تھے۔ جوانی کا دور عشق و عاشقی میں گزرا ۔


                                                  ـــــــــــــــــــــــــــــــ                                               


                       شب   جو   مسجد   میں   جا   پھنسے   مومؔن           

                             رات       کاٹی     خدا      خدا        کر    کے                 



      

               اس دور کا کلام انتہائی عاشقانہ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن بعد میں انہوں نے  سید شہید  احمد بریلوی  کے ہاتھ پر بیعت کر لی   تھی  اور ان تمام اشغال و افعال سے تائب  ہو کر زہد و تقوٰی کی  راہ اختیار کر لی اور پھر اس کے بعد خلافِ سنت کو ئی بات نہ کرتے تھے۔



                         عمر  تو    ساری کٹی     عشق    بتاں   میں      مومنؔ

                          آخری   وقت   میں   کیا  خاک   مسلماں     ہوں گے 


                                     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                 


                       چل   دئیے  سوئے  حرم   کوئے  بتاں  سے  مومنؔ

                        جب   دیا رنج    بتوں    نے      تو  خدا   یاد     آیا 


  خاندانی رئیس ہونے کی  وجہ سے مومن کو  ملازمت ےا کوئی دوسرا کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ طبابت کو بھی انہوں نے محض خدمتِ خلق کے لیے اختیار کیا تھا۔انہیں اس معاشی و معاشرتی اتار چڑھاؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا  جس سے اس دور کے دوسرے شعرا ء کو سابقہ پڑا رہتا تھا۔  انہوں نے سارے عمر ایک وضع داری، وقار اور اطمینان کے ساتھ بسر کر دی تھی۔ نہ کسی کے دربار میں ملازمت کی اور نہ  کسی بادشاہ یا نواب کی تعریف میں قصیدہ لکھا تھا۔  ٹونک کے نواب نے ان کو وطیفہ دے کر بلانا چاہا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔  اسی طرح ایک مہاراجہ کپور تھلہ نے انہیں  بڑی معقول تنخواہ پر اپنے  دربار کے ملک الشعراء کے عہدے پر بلایا مگر جب مومن کو معلام ہوا کہ اس دربار کے گویّے کی تنخواہ بھی اتنی ہے تو انہوں نے  اس بات کو اپنی توہین سمجھ کر انکار کر دیا۔  دہلی کالج کی پروفیسری سے  بھی انکار کر دیا کیونکہ  انہیں اپنے وطن  سے دور جانا پڑتا جو انہیں منظور نہ تھا۔

١٨٥١ میں وہ کوٹھے سے گر پڑے اور ان کے بازو کی ہدیاں ٹوٹ گئیں۔ اسی حالت میں اپنی تاریخَ وفات کا حساب لگایا اس حساب کے عین مطابق  تقریباََ پانچ ماہ بیمار رہ کر  ۱۱ مئی ۱۸۵۱ء کو وفات پا گئے۔ ان کی تصانیف مین ایک دیوان اور چھ مثنویاں یادگار ہیں۔


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



       مومن کے شاعرانہ مرتبہ کے متعلّق اکثر نقّاد متفق ہیں کہ انہیں قصیدہ ،مثنوی اور غزل پر یکساں قدرت حاصل تھی۔قصیدے میں وہ سودا اور ذوق کے مرتبہ کو نہیں پہنچتے تاہم اس میں شک نہیں کہ وہ اردو کے چند اچھے قصیدہ گو شعراء میں شامل ہیں۔مثنوی میں وہ دیا شنکر نسیم اور مرزا شوق کے ہم پلہ ہیں لیکن  مومن کی شاعرانہ عظمت کا انحصار ان کی غزل پر ہے۔ایک غزل گو کی حیثیت سے مومن نے اردو غزل کو ان خصوصیات کا حامل بنایا جو غزل اور دوسری اصناف میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔مومن کی غزل تغزّل کی شوخی،شگفتگی ،طنز اور رمزیت کی بہتریں ترجمان کہی جا سکتی ہے.


قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق 

سچ تو یوں ہے بری بلا ہے عشق 

اثر غم ذرا بتا دینا 

وہ بہت پوچھتے ہیں کیا ہے عشق 

آفت جاں ہے کوئی پردہ نشیں 

کہ مرے دل میں آ چھپا ہے عشق 

بوالہوس اور لاف جانبازی 

کھیل کیسا سمجھ لیا ہے عشق 

وصل میں احتمال شادی مرگ 

چارہ گر درد بے دوا ہے عشق 

سوجھے کیونکر فریب دل داری 

دشمن آشنا نما ہے عشق 

کس ملاحت سرشت کو چاہا 

تلخ کامی پہ بامزا ہے عشق 

ہم کو ترجیح تم پہ ہے یعنی 

دل ربا حسن و جاں ربا ہے عشق 

دیکھ حالت مری کہیں کافر 

نام دوزخ کا کیوں دھرا ہے عشق 

دیکھیے کس جگہ ڈبو دے گا 

میری کشتی کا ناخدا ہے عشق 

اب تو دل عشق کا مزا چکھا 

ہم نہ کہتے تھے کیوں برا ہے عشق 

آپ مجھ سے نباہیں گے سچ ہے 

باوفا حسن و بے وفا ہے عشق 


♥️♥️♥️♥️♥️______________________♥️♥️♥️♥️♥️

Comments